تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومتی رہنماؤں کے آج کے متضاد دعووں کے پیش نظر مہنگائی سے متاثرہ افراد کا نفسیاتی مریض بننا معمول ہے۔
پیٹرولیم سپلائی کی کمی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی اطلاعات کی وجہ سے گزشتہ روز ملک بھر کے گیس اسٹیشنوں پر ہزاروں کاریں، موٹر سائیکلیں اور رکشے قطار میں کھڑے تھے۔ بعض مقامات پر ٹریفک روک دی گئی۔
افواہ پھیلانے کا طریقہ کیا تھا؟ کل، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بحری جہازوں کے مالک افراد کے لیے پیٹرول مزید مہنگا ہو جائے گا، جس سے گزٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پیٹرول اسٹیشنوں پر ایک ہجوم جمع ہوا تھا۔
اس غلطی کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی دارالحکومت کراچی، اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، سکھر، حیدر آباد اور دیگر تمام اہم شہروں میں پٹرول پمپ مکمل طور پر فروخت ہو گئے، کئی شہروں میں گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں۔
مختلف آئل کارپوریشنز نے رپورٹس کے جواب میں پٹرول کی سپلائی بند کر دی۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے بیان دیا کہ حکومت ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرے گی، اور دعویٰ کیا کہ ایسی پیش گوئیاں غلط ہیں۔ افواہوں پر عوام یا میڈیا کو یقین نہیں کرنا چاہیے۔ ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات وافر مقدار میں موجود ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ملک بھر بالخصوص کراچی میں فیول سٹیشنز پر ہنگامہ برپا ہو گیا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ قوم اس وقت پٹرول پمپ کر رہی ہو۔ ہوا یوں کہ پیٹرول لینے پمپ کا رخ کیا۔ لیکن کسی نے حقیقت جاننے کی زحمت نہیں کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ رپورٹس کی وجہ سے کل سے پٹرول دستیاب نہیں ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو مہنگا ہو جائے گا، اس لیے پوری قوم اٹھی اور خود کو گیس سٹیشنوں کی طرف موڑ لیا۔
ایک گاڑی کی ٹینک کی گنجائش 27 سے 47 لیٹر کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ آٹوموبائل مالک کی گاڑی کتنے دن برداشت کرے گی، کم از کم ساری زندگی تو چلنے سے رہی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ عوام کو قائل کرنے کے لیے اوگرا کو ایک باضابطہ بیان شائع کرنا ہوگا جس میں کہا جائے کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھ رہی ہیں اور ملک میں پیٹرول کی کوئی قلت نہیں ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ گیس اسٹیشنوں پر تیل کی کافی مقدار موجود ہے۔ تاہم، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم نفسیاتی ہو چکی ہے اور صرف رات کو ری چارج کرنے کی فکر میں ہے۔
دوسری طرف تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ قوم حقیقی معنوں میں نفسیاتی ہو چکی ہے اور اس ترقی میں ہمارے قائدین کا نمایاں کردار ہے۔ مفتاح اسماعیل صاحب نے 27 مئی کو کہا کہ "آج کا تبصرہ کل کے بیان سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔"